قرآن وحدیث کی روشنی میں قربانی کے احکام
قرآن و حدیث کی
روشنی میں قربانی کے احکام یہ موجودہ ایام کا اہم مسئلہ ہے ۔ کیونکہ ابھی عید الاضحیٰ قریب ہے ۔ قربانی
یہ اسلام کے شعائر میں سے ہے ۔ اور اس کو اسلام میں نہایت اہمیت حاصل ہے ۔ یہ اس
قدر بڑی عبادت ہے کہ اللہ نے اسکو قرآن میں نماز کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے ۔ اس وجہ سے اسکی اہمیت میں مزید اضافہ ہو جاتا
ہے ۔آج ہم اللہ کی مدد سے قرآن و حدیث کی
روشنی میں اس کے
احکام و مسائل بیان کریں گے :
قربانی کا صحیح وقت جاننے کے لیئے یہاں کلک کریں۔
قربانی کی شرائط جاننے کے لیئے یہاں کلک کریں۔
(1)قربانی کی تعریف:
ما يذبح من بهيمة الأنعام أيام الأضحى بسبب
العيد؛ تقرباً إلى الله عز وجل۔
عید
الاضحیٰ کے ایام میں آدمی عید کے سبب اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیئے جو
جانور ذبح کرتا ہے ۔ اسے قربانی کہتے ہیں ۔
(2)قرآن وحدیث سے قربانی کی دلیل :
قرآن ، حدیث اور علماء کے اجماع سے یہ بات
ثابت ہے کہ قربانی مشروع ہے ۔ اور یہ اسلام کے شعائر میں سے ہے ۔ اللہ نے فرمایا: فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ۔(اے نبی ﷺ)اپنے رب کے لیئے نماز پڑھیں اور
قربانی کریں ۔(سورۃ الکوثر ، آیت نمبر:02) اور اللہ نے فرمایا: قُلْ إِنَّ صَلاتِي
وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔(اے نبی ﷺ) کہہ دیں کہ یقنا میری نماز ،
قربانی اور میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ ہی کے لیئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے
والا ہے ۔(سورۃ الانعام ، آیت نمبر:162)
ہمارے
نبی حضرت محمد ﷺ کے اقوال و افعال سے بھی قربانی کی مشروعیت ثابت ہے ۔ حضرت
براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: «مَنْ ذَبَحَ بَعْدَ
الصَّلاَةِ تَمَّ نُسُكُهُ، وَأَصَابَ سُنَّةَ المُسْلِمِينَ»جس نے نماز(عید ) کے بعد قربانی کی اسکی قربانی مکمل ہوگئی ۔ اور وہ شخص مسلمانوں
کے طریقے کو پہنچا ہے ۔(صحیح البخاری ، حدیث نمبر:5545)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : «ضَحَّى النَّبِيُّ
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ، فَرَأَيْتُهُ
وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا، يُسَمِّي وَيُكَبِّرُ، فَذَبَحَهُمَا
بِيَدِهِ»نبی ﷺ نے دو مینڈھے
ذبح کیئے ۔ تو میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ انکی گردنوں کی ایک جانب اپنا پاؤں
رکھے ہوئے تھے ۔ آپ نے بسم اللہ پڑھی اور تکبیر کہی اور دونوں کو اپنے ہاتھ سےذبح کیا ۔(صحیح
البخاری ، حدیث نمبر:5558)
(3) قربانی کا حکم :
اس بات میں علماء
کا کوئی اختلا ف نہیں ہے کہ قربانی شعائر
اسلام میں سے ہے ۔ لیکن اس بات پر آکر علماء میں اختلاف ہو جاتا ہے کہ قربانی فرض ہے یا سنت ہے ۔ اس بارے میں علما ء کے دو
گروہ ہیں ۔ ایک گروہ کے نزدیک قربانی یہ
فرض ہے جبکہ دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ
یہ عمل فرض نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ
ہے ۔ اب ہم دونوں گروہوں کے دلائل آپکے سامنے رکھتے ہیں :
قربانی کے فرض ہونے کے دلائل :
پہلی دلیل :
جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ
فرض ہے انکی سب سے پہلی دلیل اللہ
کا یہ فرمان ہے ۔ اللہ نے فرمایا: فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ۔(اے نبی ﷺ)اپنے رب کے لیئے نماز پڑھیں اورقربانی
کریں ۔(سورۃ الکوثر ، آیت نمبر: 02)
دوسری دلیل :
حضرت جندب بن سفیان
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: «مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ
الصَّلاَةِ فَلْيَذْبَحْ مَكَانَهَا أُخْرَى، وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى
صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ»جس نے نماز
(عید) سے پہلے (جانور)ذبح کر لیا تو وہ اسکی جگہ دوسرا(جانور)ذبح کرے ۔ اور جس نے
ابھی تک ذبح نہیں کیا وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔(صحیح البخاری ، حدیث
نمبر:5500)
وہ لوگ جو قربانی کے وجوب کے قائل ہیں ۔ میری رائے کے مطابق انکی سب سے مضبوط یہی
دلیلیں ہیں ۔ اب ہم آپکے سامنے ان دلائل کے جوابات رکھیں گے ۔ جو کہ ان لوگوں نے
دیئے ہیں جو قربانی کے سنت ہونے کے قائل ہیں :
پہلی دلیل کا جواب :
اس آیت میں
قربانی سے مراد قربانی والا فعل نہیں ہے بلکہ اس سے مراد
یہ ہے کہ جب تم قر بانی کرو تو صرف
اللہ کے لیئے کرو ۔ اور اگر ہم یہ مان بھی
لیں کہ ادھر "نَحَر"سے مراد قربانی ہی ہے تو ادھر یہ ایک عام حکم ہے ۔ یعنی اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر انسان
اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی یہ عمل کرلے
تو اسکا فریضہ ادا ہوجائے گا۔ ادھر ہمارے
پاس کوئی بھی ایسی دلیل نہیں ہے کہ جس سے ہم یہ ثابت کریں کہ قربانی ہر سال فرض ہے
۔ حالانکہ ہم ایسی دلیل چاہتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ قربانی ہر سال فرض ہے ۔
دوسری دلیل کا جواب :
اس حدیث میں نبی
ﷺ نے جو جانور کو ذبح کرنے کا حکم دیا ہے
وہ دوسرے جانور کے بدلے میں ہے
۔کیونکہ جب انہوں نے پہلے اس قربانی کا تعین کرلیا اور پھر بعد میں انہوں نے اسکو
وقت سے پہلے ذبح کردیا ۔ تو ان پر اسکا بدل واجب آئے گا ۔
اور جہاں تک نبی ﷺ کے اس فرمان کی بات ہے " فَلْيَذْبَحْ عَلَى
اسْمِ اللَّهِ"تو ادھراللہ کے نام کے
ساتھ ذبح کرنے کا حکم ہے نہ کہ مطلق ذبح
کرنے کا حکم ۔ تو یہ دلیل بھی قربانی کے فرض ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی ۔
قربانی کے عدم وجوب کے دلائل :
علماء کا یک گرہ کہتا ہے کہ قربانی فرض نہیں ہے
بلکہ یہ سنت موکدہ ہے ۔ اس گروہ کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں :
پہلی دلیل :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:"ثَلَاثٌ هُنَّ عَلَيَّ
فَرَائِضُ وَهُنَّ لَكُمْ تَطَوُّعٌ: النَّحْرُ، وَالْوِتْرُ، وَرَكْعَتَا
الضُّحَى" قربانی ، وتر
اور نماز ِ چاشت کی دو رکعات یہ تین چیزیں میرے لیئے فرض ہیں جبکہ تمہارے لیئے نفل ہیں (السنن الکبریٰ ،
حدیث نمبر: 4145)
دوسری دلیل :
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب قربانی کا ارادہ کرتے تو آپ ﷺ دو موٹے
تازے سینگوں والے دو مینڈھے خریدتے ۔ پھر جب نبی ﷺ خطبہ دے لیتے اور نماز ادا کر لیتے تو آپ ﷺ ان میں سے ایک
مینڈھے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کر دیتے پھر کہتے : "اللهُمَّ هَذَا عَنْ
أُمَّتِي جَمِيعًا مَنْ شَهِدَ لَكَ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لِي بِالْبَلَاغِ۔اے اللہ ! یہ میری
ساری امت کی طرف سے ہے ۔ جس نے بھی تیری توحید کی گوا ہی دی اور میرے (دین ) پہنچا
دینے کی گواہی دی ۔(السنن الکبریٰ، حدیث نمبر:19009)
یعنی جو قربانی
فرض تھی وہ فرض نبی ﷺ نے ادا کردیا ۔ اور جو باقی ہے وہ امت کے لیئے نفل ہے
۔
تیسری دلیل :
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول
ﷺ نے فرمایا:«إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ
أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ»جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو ، اور تم میں سے کوئی
قربانی کا ارادہ کرے تو اے چاہیئے کہ وہ اپنے بال اور ناخن کو نہ کاٹے۔(صحیح مسلم
، حدیث نمبر:1977)
ادھر نبی ﷺ نے قربانی کو ارادے کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اور ارادہ کسی بھی
چیز کے وجوب کے منافی ہوتا ہے ۔یہ ان لوگوں کے دلائل ہیں جو کہ اس بات کے قائل ہیں
کہ قربانی فرض نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے
۔ اب انکے دلائل کے جوابات نھی مندرجہ ذیل ہیں جو کہ ان لوگوں نے دیئے ہیں جو قربانی
کے وجوب کے قائل ہیں ۔
پہلی دلیل کا جواب :
اس حدیث کی سند
درست نہیں ہے ۔ اور یہ حدیث ضعیف ہے ۔ اور ضعیف حدیث قابل ِ حجت نہیں ہوتی ۔
دوسری دلیل کا جواب :
پہلی حدیث کی طرح یہ حدیث بھی ضعیف ہے ۔ اور ضعیف حدیث قابل حجت نہیں ہوتی۔ علامہ نا صر الدین البانی
نے اپنی کتاب "سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ " میں اس حدیث کو ضعیف قرار دیا
ہے ۔(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ، حدیث نمبر:6461)
تیسری دلیل کا جواب :
اگر ہم کسی بھی چیز کی اردے کی طرف نسبت کرتے ہیں تو اسکا
مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اب اسکی فرضیت ختم ہوگئی ہے اور اس معاملے میں ہم بااختیار ہیں ۔ کیونکہ بعض اوقات اس طرح ہوتا
ہے کہ آدمی کے لیئے ارادہ کرنا ضروری ہوتا ہے جب کوئی ایسی چیز ہو جسکی ادائیگی ضروری ہو ۔ اور بعض اوقات جب کسی
چیز کی فرضیت کی دلیل موجود نہ ہو تو اس
وقت اراد ہ کرنا بھی ضروری نہیں ہوتا ۔
جیسے نماز ہے اگر تو نماز فرضی ہے تو اسکی ادائیگی کا ارادہ کرنا فرض ہے ۔
لیکن اگر نماز نفل ہے تو اسکا ارادہ کرنا بھی ضروری نہین ہے ۔
راجح موقف :
قربانی کی فرضیت یا
عدم فرضیت کے حوالے سے جو راجح موقف ہے وہ یہی ہے کہ اگر آدمی کے پاس اسکی ضروریا ت سے زائد مال موجود ہے تو وہ
قربانی کرے۔ بصورت دیگراس پر قربانی فرض نہیں ہے ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَوُجُوبُهَا
حِينَئِذٍ مَشْرُوطٌ بِأَنْ يَقْدِرَ عَلَيْهَا فَاضِلًا عَنْ حَوَائِجِهِ
الْأَصْلِيَّةِ كَصَدَقَةِ الْفِطْرِ۔(قربانی)اسی وقت ہی فرض ہوگی
جب آدمی اسکی اقت رکھتا ہو ۔ (اور) اسکے
پاس اپنی ضروریات سے زائد مال موجودہو ۔ جیسے صدقہ فطر میں ہوتا ہے ۔( مجموع
الفتاویٰ ، جلد نمبر 23،صفحہ نمبر:164)
قربانیکی اہمیت کو واضح کرنے کےلیئے ہم نے آپکے سامنے علماء کی آراء
کو بیان کیا ہے ۔ لہذا اس حوالے سے احتیاط والا یہی موقف ہے کہ اگر آدمی کے پاس قربانی
کرنے کی طاقت ہے تو آدمی کسی صورت بھی اسے
نہ چھوڑے کیونکہ یہ اسلام کے شعائر میں سے ہے ۔ اللہ ہمیں دین کو سمجھنے اور اس ہر
عمل کی تو فیق عطا فرمائے ۔ آمین !
No comments:
Post a Comment