قرآن و سنت کی روشنی میں قربانی کاصحیح وقت کیا ہے؟ - Islamic Knowledge

قرآن و سنت کی روشنی میں قربانی کاصحیح وقت کیا ہے؟

قرآن و سنت کی روشنی میں قربانی کاصحیح وقت کیا ہے؟

قرآن و سنت کی روشنی میں قربانی کاصحیح وقت کیا ہے؟

قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی کے احکام  یہ  ایک اہم مسئلہ ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ  عید الاضحیٰ کی آمد آمد ہے ۔ اس  موقع پر مسلمان  حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرتے ہیں ۔ یعنی اللہ کی راہ میں جانور کی قربانی کرتے ہیں ۔  اور ہمیں  قربانی کے مسائل کا علم ہونا ضروری ہے ۔ تاکہ ہم اس معاملے میں کسی بھی غلطی کا  شکار نہ ہوں ۔ اللہ کی مدد سے ہم قرآن وسنت کی روشنی میں اس اہم  معاملے کو بیان کریں گے ۔

جانورکوذبح کرنے کے آداب جاننے کےلیئے یہاں کلک کریں

(1) قربانی کا وقت کب شروع ہوتا ہے ؟

قربانییہ ایک عبادت ہے ۔   اور اس عبادت کا ایک مقررہ وقت ہے ۔اگر کوئی شخص  اسکے وقت سے پہلے   اسکو اداکردے تو اسکا یہ عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوگا ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اس میں جان بوجھ کر تاخیر کرتا ہے تو اسکی قربانی بھی اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوگی ۔ قربانی کا اوَّل وقت نماز ِ عید کے شروع ہوتا ہے  ۔ جس شخص نے نمازِ عید سے پہلے اپنا جانور ذبح کردیا  تو اسکی قربانی قابلِ قبول نہیں ہوگی ۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے  ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلُ، فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ، لَيْسَ مِنَ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ۔ جس شخص نے (نمازِ عید ) سے پہلے   جانور ذبح کردیا  تو وہ صرف اسکے گھر والوں کے لیئے  گوشت ہی ہے ۔ اس کے لیئے قربانی   کا کوئی اجر نہیں ہے ۔(صحیح البخاری ، حدیث نمبر:5545)
حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:«مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاَةِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِهِ، وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلاَةِ فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ، وَأَصَابَ سُنَّةَ المُسْلِمِينَ»جس شخص نے نماز(عید ) سے پہلے جانور ذبح کیا اس نے اپنے لیئے ہی ذبح کیا ہے ۔ جس شخص نے نماز ِ (عید)کے بعد اپنا جانور ذبح کیا تو اسکی قربانی مکمل ہوگئی ۔ اور وہ شخص مسلمانوں کے طریقے کو پہنچا۔(صحیح البخاری ، حدیث نمبر:5546)
حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں عید کے دن میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا ۔تو نبی ﷺ نے فرمایا: مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُعِدْ مَكَانَهَا أُخْرَى۔جس شخص نے نماز سے پہلے جانور ذبح کرلیا  تو وہ اسکی جگہ پر دوسرا جانور ذبح کرے ۔(صحیح البخاری ، حدیث نمبر:5562)
افضل یہی ہے کہ آدمی  نماز ِ عید کے بعد دونوں خطبے سن کر اپنا جانور ذبح کرے ۔ حضرت جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  :صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ خَطَبَ، ثُمَّ ذَبَحَ۔قربانی کے دن نبی ﷺ نے نماز (عید ) کے بعد خطبہ دیا ۔ پھر اسکے بعد جانور کو ذبح کیا ۔(صحیح البخاری ، حدیث نمبر:985)

(2)قربانی کا وقت کب ختم ہوتا ہے ؟

قربانی  چونکہ ایک عبادت ہے ۔ اس لیئے  اسکا ایک مقررہ وقت ہے ۔ ہم نے اوپر  اسکے شروع ہونے کا وقت بیان کیا ہے ۔ اب ہم اللہ کی مدد سے اسکے اختتام کا وقت بیان کریں گے ۔جونہی ایام تشریق ختم ہوتے ہیں  اسکا وقت بھی ختم ہوجاتا ہے ۔ ایام تشریق 11،12،اور 13 ذوالحج ہیں ۔ یعنی قربانی کے کل چار دن ہوئے ۔ ایک دن 10 ذوالحج کا یعنی عید الاضحیٰ کا دن اور اسکے بعد تین دن ۔
 اگرچہ اس معاملے میں علماء کا اختلا ف ہے لیکن اسمیں راجح موقف یہی ہے کہ  اس عبادت کا وقت  اس وقت ختم ہوجاتا ہے جب ایام تشریق ختم ہو جاتے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا: لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الأَنْعَامِ۔چاہیئے کہ لوگ  اپنے فائدے کی جگہ پر اکٹھے ہوں ۔ اور اللہ کا ذکر کریں ا س وجہ سے کہ اللہ نے جو ا نکو جانوروں کی صورت میں  جو رزق دیا ہے ۔(سورۃ الحج ، آیت نمبر:28)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں :الأيام المعلومات: يَوْم النحر وثلاثة أيام بعده ۔(قرآن میں جو )" أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ " ان سے مراد ایک تو عید کا دن ہے اور عید کے بعد کے تین دن ہیں ۔(تفسیر ابن ابی حاتم ، حدیث نمبر:13893)
حضرت نُبَیشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ»ایام ِ تشریق کھانے پینے کے دن ہیں ۔(صحیح مسلم ،حدیث نمبر:1141)مزید جب ان دنوں کے دیگر احکامت ایک ہیں جیسے یہ سارے کے سارے دن  منیٰ کے دن ہیں ، رمی جما ر کے دن ہیں ۔ اور ان تمام دنوں میں روزہ رکھنا بھی حرام ہیں تو ہم ذبح والے معاملے کو پہلے دو دنوں کے ساتھ کیسے خاص کر سکتے ہیں ؟

لفظ منیٰ کی وضاحت:

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ۔اور منیٰ سارا کا سارا قربانی کی جگہ ہے ۔(مسند احمد اور اسکی سند حسن ہے ۔ حدیث نمبر:562)
امام راغب فرماتے ہیں کہ"منی" کا معنیٰ یہ ہے کہ کسی سیال چیز کا اچھل کر خارج ہونا ۔ اسی سے لفظ "منی " نکلا ہے کیونکہ اسمیں انسان کا مادہ تولید اچھل کر خارج ہوتا ہے ۔ اور اسی سے لفظ "تمنا" نکلا ہے کیونکہ تمنا میں انسان کے جذبات اچھل کر نکلتے ہیں ۔  تو ان چار دنوں کو منیٰ کے دن اس لیئے کہا گیا ہے کہ ان میں جانوروں کا خو ن اچھل کر باہر نکلتا ہے ۔تو جب منیٰ کے یہ چار دن ہیں تو یہ بات ظاہر ہے کہ قربانی کے بھی یہی چار دن ہوں گے ۔
دن  کے وقت قربانی کرنا افضل عمل ہے ۔لیکن رات کے وقت بھی قربانی جائز ہے ۔کیونکہ جب  مطلق طور ہر دن کا ذکر ہے تو               رات اسمیں خود بخود آجاتی ہے ۔  رات کے وقت  اس عمل کرنے  میں کوئی کراہت نہیں ہے  کیونکہ کراہت کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ 
اس مختصر سی بحث میں ہم نے اللہ کی مدد سے قربانی کے اوقات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اللہ ہمیں دین کو سمجھے اور اسکے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین!








No comments:

Post a Comment