محمدﷺکاقیدیوں سےرویہ
اللہ رب العزت نے
سرور دو عالم ،شاہ عرب وعجم،مربی اعظم ،قائد اعظم حضرت محمد
مصطفی ٰ ﷺ کی ذات عالیہ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔جیسا
کہ اللہ نے آپﷺ کے بارے میں اپنی مقدس کتاب میں ارشاد فرمایا ہے: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ
إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ۔(اے نبی ﷺ) ہم نے آپکو
تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے(سورۃ الانبیاء ،آیت نمبر 107) یہی وجہ ہے کہ
ہمارے نبی ﷺ نے کسی کو تکلیف دینے
کی ،ظلم کرنے کی ، نا حق مار پیٹ کرنے
کی اور کسی کے حقوق کے جائز حقوق سلب کرنے
کی ہرگز اجازت نہیں دی ہے۔ سوائے تقویٰ کے کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کسی حسین کے
حسن کو ، کسی مالدار کے مال کو ،کس قابل اثر کے اثر کو اپنے بر عکس پر فوقیت نہیں دیتی۔کیونکہ اللہ نے قرآن میں ارشاد
فرمایاہے:
إِنَّ
أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ۔ جو شخص جتنا خوف خدا رکھتا ہے اتنا ہی اللہ کے نز دیک مرتبہ رکھتا
ہے(سورۃ الحجرات،آیت نمبر:13)
یہی وجہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے انسان تو انسان جانوروں کے حقوق کا بھی خیا ل رکھا ہے ۔حتی کے ذبح کے وقت جانور کے سامنے چھری تیز کرنے کی بھی آپ ﷺ نے اجازت نہیں دی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے اس نے بکری کو ذبح کرنے کے لیےلٹایا ہوا تھااور اپنی چھری تیز کر رہا تھا ۔ آپﷺ نے اسے مخاطب کر کے فرما یا: «أَتُرِيدُ أَنْ تُمِيتَهَا مَوْتَاتٍ هَلَّا حَدَدْتَ شَفْرَتَكَ قَبْلَ أَنْ تُضْجِعَهَا» کیا تو نے اسے دو موتیں دینی ہیں ؟کیا اسکو لٹانے سے پہلے چھری تیز نہیں کر سکتے تھے؟(مستدرک حاکم وسندہ صحیح ،ح:7563)
جس نبی نے جانوروں کا اس قدر خیال رکھا ہے ۔اس بات کا آپ خود ہی تصور کریں کہ اس نبی نے انسانیت کا کس قدر خیا ل رکھا ہوگا۔ دور جاہلیت میں قیدیوں کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا جاتا تھا ۔انکو کسی بھی قسم کی کوئی مراعات حاصل نہ تھیں ۔طرح طرح کی تکالیف سے انہیں دوچار کیا جاتا تھا ۔ اور بعد میں جنہوں نے اسلام کے قوانین کو پس پشت ڈالا انہوں نے قیدیوں سے ایسی وحشیانہ حرکات کیں کہ جنہیں دیکھ کر انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔
کچھ اسی طرح کی صورت حال موجودہ زمانے میں بھی لوٹ آئی ہے بلکہ یہ تو ماضی کی نظیروں کو بھی پس پشت ڈالنے میں مستعد نظر آتی ہے ۔ابوغریب جیل ،اسرائیلی جیل اور دیگر اسطرح کی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ ایسا وحشت ناک سلوک ہوتا ہے کہ کوئی بھی قلمکا ر انہیں بیان کرنے سے عاجز ہے ۔ لیکن رحمت دو عالم ﷺ نے قیدیوں سے ایسا شاندار اور بے مثال رویہ اپنایا کہقیدیوں سے بھی آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں جیسا سلوک کیا۔ مندرجہ ذیل میں محمد ﷺ کے قیدیوں سے رویہ کو بیان کیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے انسان تو انسان جانوروں کے حقوق کا بھی خیا ل رکھا ہے ۔حتی کے ذبح کے وقت جانور کے سامنے چھری تیز کرنے کی بھی آپ ﷺ نے اجازت نہیں دی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے اس نے بکری کو ذبح کرنے کے لیےلٹایا ہوا تھااور اپنی چھری تیز کر رہا تھا ۔ آپﷺ نے اسے مخاطب کر کے فرما یا: «أَتُرِيدُ أَنْ تُمِيتَهَا مَوْتَاتٍ هَلَّا حَدَدْتَ شَفْرَتَكَ قَبْلَ أَنْ تُضْجِعَهَا» کیا تو نے اسے دو موتیں دینی ہیں ؟کیا اسکو لٹانے سے پہلے چھری تیز نہیں کر سکتے تھے؟(مستدرک حاکم وسندہ صحیح ،ح:7563)
جس نبی نے جانوروں کا اس قدر خیال رکھا ہے ۔اس بات کا آپ خود ہی تصور کریں کہ اس نبی نے انسانیت کا کس قدر خیا ل رکھا ہوگا۔ دور جاہلیت میں قیدیوں کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا جاتا تھا ۔انکو کسی بھی قسم کی کوئی مراعات حاصل نہ تھیں ۔طرح طرح کی تکالیف سے انہیں دوچار کیا جاتا تھا ۔ اور بعد میں جنہوں نے اسلام کے قوانین کو پس پشت ڈالا انہوں نے قیدیوں سے ایسی وحشیانہ حرکات کیں کہ جنہیں دیکھ کر انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔
کچھ اسی طرح کی صورت حال موجودہ زمانے میں بھی لوٹ آئی ہے بلکہ یہ تو ماضی کی نظیروں کو بھی پس پشت ڈالنے میں مستعد نظر آتی ہے ۔ابوغریب جیل ،اسرائیلی جیل اور دیگر اسطرح کی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ ایسا وحشت ناک سلوک ہوتا ہے کہ کوئی بھی قلمکا ر انہیں بیان کرنے سے عاجز ہے ۔ لیکن رحمت دو عالم ﷺ نے قیدیوں سے ایسا شاندار اور بے مثال رویہ اپنایا کہقیدیوں سے بھی آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں جیسا سلوک کیا۔ مندرجہ ذیل میں محمد ﷺ کے قیدیوں سے رویہ کو بیان کیا گیا ہے۔
بد سلوکی کے با وجود قیدی سے حسن سلوک :
موجودہ دور میں قیدی کے ساتھ ویسےہی انتہائی بر اسلوک کیا جاتا ہے ۔لیکن سرکا ردوعالم ﷺ کے رویہ کا مظا ہرہ کریں کہ قیدی پر مکمل قدرت اور غلبہ رکھنے کے باوجو د آپﷺ نے دشمن انتہائی اچھا سلوک کیا۔ بلکہ مہمانوں کی طرح اسکی خا طرو تواضع کی۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے گھڑ سواروں کا ایک دستہ بھیجا ۔وہ اہل یمامہ کے سردار ثمامہ بن اثال کو پکڑ لائے ان کا تعلق بنو حنیفہ سے تھا ۔(صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) نے اسے مسجد کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا ۔رسول ﷺ اسکے پاس آئے تو آپﷺ نے اس سے کہا :اے ثمامہ تیرے پاسکیا ہے ؟تو اس نےکہا:عِنْدِي يَا مُحَمَّدُ خَيْرٌ، إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ۔اے محمد ! میرے پاس خیر ہی خیر ہے اگر تو (مجھے ) قتل کردے گا تو ایک خون والے کو قتل کرے گا (یعنی میرے قتل کا بدلہ لیا جائے گا) اگر مجھ پر احسان کرے گا تو ایک قدردان پر احسان کرے گا اور اگر مال چاہئے تو جتنا مال چاہئے سوال کرو وہ تمہیں دے دیاجائے گا ۔ رسول ﷺ نے اسے چھوڑ دیا اور اگلے دن پھر اس سے پوچھا : اے ثمامہ تیرے پاس کیا ہے ؟تو اس نے کہا : وہی ہے جو میں کہہ چکا ہوں ۔ اگر مجھ پر احسان کرے گا تو ایک قدردان پر احسان کرے گا۔ا گر تو (مجھے ) قتل کردے گا تو ایک خون والے کو قتل کرے گا (یعنی میرے قتل کا بدلہ لیا جائے گا)۔ اور اگر مال چاہئے تو جتنا مال چاہئے سوال کرو وہ تمہیں دے دیاجائے گا ۔رسول ﷺ نے اسے چھوڑ دیا پھر اگلے دن اس سے یہی سوال کیا تو اس نے یہی جواب دیا ۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ثمامہ کو چھوڑ دو ۔ (ثمامہ )قریب ہی ایک کھجور کے باغ میں گئے وہاں سے غسل کیا پھر مسجد میں داخل ہوئے اور کلمہ پڑھ کر مسلما ن ہو گئے۔(صحیح مسلم،ح:59)
اور ایک روایت میں ہے
کہ ثمامہ کوصبح اور شام ایک اونٹنی کا
دودھ پلایا جاتا تھا ۔(تاریخ مدینہ لابن ابی شیبہ)
مشقت کرکے قیدیوںکو کھانا کھلا نا:
اللہ عزوجل نے قرآن میں جنتیوں کی یہ صفا ت میں سےایک صفت یہ بھی بیان کی ہے وہقیدیوں کوکھانا کھلانے والے ہوں گے ۔اللہ نے فرمایا: وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا۔(جنتی ) اپنی خواہش کے باوجودمسکین ،یتیم اور قیدی کوکھانا کھلا نے والے ہوں گے ۔(سورۃ الدہر ،آیت نمبر:08)۔بدر کے قیدیوں سے صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم نے اس قدر بہترین سلوک کیا کہ ابو عزیز بن عمیر کہتے ہیں کہ میں انصار کے گروہ میں تھا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب صبح یا شام کا کھانا لاتے تو مجھے خاص طور پر پر روٹی دیتے اور خود کھجوریں کھا لیتے کیونکہ رسول ﷺ نے انکو ہمارے ساتھ (اچھا سلوک ) کرنے کی جو وصیت کی تھی۔(تاریخ طبری،ج:02،ص:61-460)قیدیوں کے لئے بہترین لباس کا انتظام کرنا:
انسان کو جہاں دیگر بہت سی ضروریات ہوتی ہیں وہیں جسم ڈھانپنے کے لئے اسے لباس کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔پیغمبر اسلام ﷺ نے جہاں قیدیوں کے لئے کھانے کا انتظام فرمایاہے وہیں آپﷺ نے قیدیوں کے لئے لباس کا بھی انتظام کیا ہے۔حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن جب قیدی لائے گئے توعباس رضی اللہ عنہ(جو کہ ابھی مسلما ن نہیں ہوئے تھے)کے پاس کپڑے نہیں تھے ۔عبداللہ بن ابی (منافق) کا قمیص عباس رضی اللہ عنہ کو پورا آگیا تو آپﷺ نے اسکا قمیص منگوا کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو پہنا دیا ۔(صحیح البخاری،ح:3008) رشتہ داری کو نکال کر اگر عبا س رضی اللہ عنہ کو بحثیت قیدی دیکھا جائے تویہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپﷺ نے قیدی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دشمن سے بھی مدد لینے میں کوئی عارمحسوس نہیں کی۔قیدیوں کا ٹھکانہ:
ہمارے ہاںعموماقیدیوںکوایسی جگہوں میں رکھا جاتا ہے کہ جہاں ایک جانوربھی رہنا پسندنہیں کرتا ۔ایسی جگہ جہاں اسکا لوگوں سے رابطہ بالکل منقطع ہوجاتا ہے لیکن سرکار دو عالم ﷺ نے قیدیوں کے ساتھ جہاں دیگر معاملات میں ان سے محبت والا رویہ رکھا وہیں ان کو رہنے کے لیے جگہ بھی بہترین دیا کرتے تھے۔ قیدیوں کو یا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے گھروں میں رکھا جاتا تھا جیسا کہ اوپر ابو عزیز کے بیان کردہ واقع سے واضح ہوتا ہے یا پھر انکا دوسرا مقام مسجد ہوا کرتا تھا جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جب ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو قید کر کے لائے تو آپﷺ نے انہیں 03 دن تک مسجد ہی میں رکھا پھر انہیں بغیر کسی معاوضہ کے آزاد کردیا۔(صحیح مسلم،ح:59)
حضرت محمد ﷺ نے اتنے شاندار اور عدیم المثال
رویے کے باوجو د قیدیوں کو ہمیشہ ہی قید
وبند میں نہیں رکھا بلکہ ان کے لیے یہی پسند کیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح
نعمت آزدی سے مستفید ہو جائیں۔
ہمیشہ قید میں رکھنا پسندیدہ نہیں :
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً۔ پس جب تم کا فروں سے ملو(یعنی جنگ کرو)تو انکی گردنوں کو مارو یہاں تک کہ جب تم اچھی طرح قتل کرلو پھر (ان جنگی قیدیوں کو) مضبوطی سے باندھ لوپھر انہیں احسان کرتے ہوئے چھوڑ دویا فدیہ لے کر چھوڑ دو۔(سورہ محمد ،آیت نمبر :4)گویا ہمیشہ ہی قیدی بنا کر رکھنا یہ اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فُكُّوا العَانِيَ، يَعْنِي: الأَسِيرَ ۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:قیدیوں کو آزاد کرواؤ۔(صحیح البخاری ،ح:3046) ہ قیدیوں کو آزاد کرنے کی مختلف صورتیں حضرت محمد ﷺ نے ہمیں بتائی ہیں بلکہ سرکا ر دو عالم ﷺ کی عملی زندگی سے بھی اسکا ثبوت ملتا ہے۔بغیر فدیہ کے آزاد کرنا:
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں (صلح حدیبیہ) میں اہل مکہ کے 80 آدمی فجر کے وقت نبی ﷺ اور آپکے اصحاب پر حملہ کرنے کے لیئے تنعیم کے پہاڑوں سے اتر آئے۔صلح کرنے کی غرض سے آپﷺ نے انہیں پکڑ لیا اور انہیں (بغیر فدیہ لیئے ) آزاد کر دیا۔(سنن ابی داود وسندہ صحیح،ح:2688) اس خطرنا ک موقع پر آپ ﷺ کا ان قیدیوں کو چھوڑ دینا آپ ﷺ کے شاندار رویے کی مثال ہے۔تعلیم کے بدلے آزاد کرنا:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بدر کے (بعض قیدیوں کے پاس ) دینے کے لیئے فدیہ نہیں تھا ۔«فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِدَاءَهُمْ، أَنْ يُعَلِّمُوا أَوْلَادَ الْأَنْصَارِ الْكِتَابَةَ» آپﷺ نے انکا فدیہ یہ مقرر کیا کہ وہ انصار کے بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں (المستدرک علی الصحیحین وسند ہ صحیح ،ح:2621)فدیہ لے کر قیدیوں کو آزاد کرنا:
بعض مواقع پر آپﷺ نے قیدیوں سے فدیہ بھی لیا ہے ۔جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے ۔حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ فِدَاءَ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعَ مِائَةٍ»جنگ بدرکے موقع پر نبی ﷺ نے اہل جاہلیت (یعنی مشرک قیدیوں ) کا فدیہ 400 (درہم فی کس ) کے حساب سے مقرر کیا (سنن ابی داود وسندہ حسن عند شیخ زبیرعلی رحمہ اللہ ،ح:2691)خاتمہ:
اللہ نے نبی ﷺ کو تمام جہانوں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اس لیئے آپ ﷺ نے ہمیں قیدیوں کے ساتھ بھی اشھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔بعض قیدی ایسے بھی ہوتے ہیں انکو
آزاد کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا بلکہ وہ
اسلامی حکومت کے لیئے خطرے کا باعث بن
سکتے ہیں اسلیئے ایسے قیدیوں کے بارے میں ہمیں اسلام یہی ہدایات دیتا ہے کہ ایسے
قیدیوں کو قتل کردیا جائے یہی وجہ ہے کہ جن قیدیوں
نےآپ ﷺ کو آپکے صحابہ کو زیادہ تکلیف سے دوچار کیا تھا جیسے نضر بن حارث اور عقبہ بن معیط اور وہ بدر میں قیدی بن گئے
تھے. آپﷺ نے انہیں قتل کروادیا تھا کیونکہ وہ بعد میں بھی اسلا م کے لیئے خطرے کا
باعث بن سکتے تھے ۔
No comments:
Post a Comment