محمدﷺکادشمنوں سے رویہ - Islamic Knowledge

محمدﷺکادشمنوں سے رویہ

محمدﷺکادشمنوں سے رویہ
محمدﷺکادشمنوں سے رویہ

محمدﷺکادشمنوں سے رویہ

الاللہ نے سرکا ر دو عالمﷺ کی زندگی کو تمام  دنیا کے لئیے  بہترین نمونہ بنایا ہے جس کے مطابق زندگی گزار کر انسان دنیا آخرت کی تمام بھلائیاں سمیٹ سکتا ہے۔اللہ نے اپنے پیغمبر ﷺکے بارے سورۃ الاحزاب آیت نمبر 21میں فرمایا:تمہارے لیے اللہ کے رسولﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہمیں رسولﷺ کی سیرت طیبہ سے مبارک اور مقدس تعلیمات مل سکتی ہیں ،رسولﷺ نے اس کائنات میں اپنے آنے کا مقصد واضح فرماتے ہوئے فرمایا:مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کےلیئے مبعوث کیا گیا ہے(مسند احمدوسندہ صحیح،ح:8952)  
ہمارے نبی حضرت محمدﷺ کا رویہ اس قدر بہترین تھا کہ آپﷺ کے بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:اللہ کے رسولﷺ نے کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا  ۔(صحیح البخاری،ح:6853)
اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو نبوت سے سرفراز کیا تو غیر تو غیر آپﷺ کے اپنے بھی آپکے دشمن بن گئے آپﷺ کو وہ طرح طرح کی تکالیف سے دوچار کرتے لیکن آپﷺ نے  کبھی بھی ان سے انتقام نہ لیا بلکہ ہمیشہ بہترین رویے کا مظاہرہ کیا  آپﷺ کے دور میں آپﷺ کے ؐمخالفین تین طرح کے تھے 

(1)مشرکین

(2)اہل کتاب (یہودی،عیسائی)

(3)منافقین


ان تینوں گروہوں نے  مختلف مواقع پر اپنی اپنی بھر پور طاقت سے نبیﷺ کو تکلیف دینے کی بھر پور کوشش کی ۔لیکن رحمت دو عالم ﷺ نے ان سے بہترین رویے کا مظاہرہ کیا۔ذیل میں حضرت محمد ﷺ کے دشمنوں سے  رویے کو بیان کیا گیا ہے؛

(1)مشرکین سے محمدﷺ کا رویہ:

حضورﷺ جو دین لے کر آئے ہیں وہ اعتدال اور امن وسلامتی کا دین ہے۔خود آپﷺ بھی امن ہی کو پسند فرمایا کرتے تھے  ۔معاملہ اور برتاؤ کے اعتبار سے اسلام نے مشرکین کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے:ایک تو وہ مشرک جومسلمانوں کو قتل کرتے ہیں مسلمانوں سے لڑائی کرتے ہیں اور دوسرے دہ ہیں  جو اسلام تو قبول نہیں کرتے لیکن مسلمانوں کے خلاف لڑائی بھی نہیں کرتے ہیں ۔

پہلی قسم کے  مشرکین کے خلاف جب آپ ﷺ لڑائی کی لیے کوئی دستہ  بھیجتے تو انہیں خاص طور پر یہ وصیت فرماتے کہ بچوں ،بوڑھوں،عورتوں  کو قتل نہیں کرنا ،لاشوں کا مثلہ نہیں کرنا گویا آپﷺ نے انکے ساتھ بھی بہتر ین رویہ رکھنے کی تلقین کی ہے
اور جو دوسری قسم کے جو مشرکین ہیں ان کے  بارے میں اللہ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:جن مشرکین نے تم سے  لڑائی کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ،اللہ تمہیں ان سے نیکی کرنے ،اور ان کے معاملے میں انصاف  کرنے سے نہیں روکتا(سورۃ الممتحنہ،آیت نمبر:08)
اگر کسی مسلمان شخص کے  والدین مشرک ہوں تو اسلام ایسے والدین کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے   بلکہ آپﷺ کی حیات طیبہ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ  جب حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے آپﷺ سے پوچھا: میری والدہ مجھ سے ملنے آئی ہے اور وہ مشرکہ ہے اور اسلام کو نا پسند کرتی ہے۔ کیا میں اس سے اچھا سلوک کروں ؟توآپﷺ نے فرمایا :ہاں اپنی ماں سے حسن سلوک کرو۔(ٍصحیح البخاری،ح:5979)
کوئی بھی آدمی اپنے دشمنوں سے ویسے ہی اچھا برتاؤ نہیں کرتا بالخصوص جب وہ دشمن انسان کے ہاتھ لگ جائے اور     انسان اس پر مکمل کنٹرول پالے لیکن  مندرجہ زیل واقعہ سے آپ سرکار دو عالمﷺ کے شانداراور فقید المثال رویے کا مظاہرہ کریں۔  کہ آپﷺ نے دشمن سے مکمل بدلہ لینے کی طاقت کے باوجود اسے معاف کردیا۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ نجد کے علاقے میں ایک غزوہ کے لیئے گئے ۔ جب رسول اللہ ﷺ واپس لوٹے تو وہ بھی اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ واپس لوٹے ۔رسول ﷺ نے پڑاؤ کیا تو لوگ سایہ تلاش کرنے کے لیئے علیحدہ علیحدہ ہو گئے۔ رسولﷺنے ایک درخت کے نیچے   پڑاؤ کیا اور اپنی تلوار درخت کے ساتھ لٹکا دی ۔ہم ابھی ہلکا سا سو ۓتھے کہ اللہ کے رسو لﷺ ہمیں بلا رہے تھے   ،(ہم نے دیکھا کہ) آپﷺ کے پاس ایک دیہاتی کھڑا ہے ۔آپﷺ نے فرمایا: اس نے مجھ پر میری ہی تلوار سونت دی تھی  جبکہ میں سو رہا تھا پس جب میں بیدار ہوا تو یہ تلوار اسکے ہاتھ میں تھی اور اس نے کہا کہ کون تمہیں بچائے گا ؟ تو میں نے کہا "اللہ بچائے گا ا(پھر تلوار اسکے ہاتھ سے گر گئی اور آپﷺ نے اٹھالی)لیکن آپﷺ نے اس سے بدلہ نہیں لیا (بلکہ معاف کر دیا)
(صحیح البخاری،ح:2910) 
 (2) اہل کتاب سےمحمدﷺ کارویہ:
اہل کتاب  میں یہودی اور عیسائی آتے ہیں یہ دونوں گروہ اگرچہ مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں  ۔اور یہ قرآن کا اٹل فیصلہ ہے کہ اہل کتاب یہ کسی بھی صورت مسلمانوں سے راضی نہیں ہو سکتے  جب تک کہ مسلمان ان کا دین قبول نہ کر لیں اللہ نے فرمایا:یہودو نصاریٰ تم سے کبھی  راضی نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم  انکے دین کی پیرو نہ بن جاؤ۔لیکن اس کے باوجود اسلام ان سے برے برتاؤکی اجازت  نہیں دیتااور رحمت دو عالم ﷺ کی حیات مقدسہ ہمیں یہ مثالیں ملتی ہیں  کہ آپ ﷺ نے ان سے بھی اچھا برتاؤ کیا ہے۔ یہود کا ایک وفد حضور ﷺ کی خدمت میں حا ضر ہوا اور آپﷺ کو کہا "السام علیکم"جس کا مطلب ہے کہ تمہیں موت آئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات سن لی اور کہا"بل وعلیکم السام واللعنۃ"یعنی تمہیں بھی موت آئے اور تم پر لعنت ہو ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ جواب سن کر آپﷺ ام المومنین سے مخاطب ہو کر فرمایا:اے عائشہ! اللہ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتے ہیں  اس پر آپ رضی اللہ عنہا نے کہا :اےاللہ کے رسولﷺ !جو انہوں نے کہا ہے وہ آپ نے نہیں سنا ؟آپﷺ نے فرمایا :(میں نے سنا اور) میں (نے جوابا بس یہی کہا)"وعلیکم"یعنی جو تم نے کہا ویسا تم پر بھی ہو۔(صحیح مسلم ،ح:2165)آپﷺ اگر چاہتے تو بدلہ بھی لے سکتے تھے لیکن آپﷺ نے نہ تو کوئی برے الفاظ استعمال کئے اور نہ ہی  مشتعل ہوئے بلکہ نہایت دھیمے انداز میں انکی بد کلامی کا جواب دیا۔

یہود کے ساتھ آپﷺ کا رویہ اس قدر شاندار تھا کہ آپ ﷺ یہود کے جنازوں کا بھی احترام کیا کرتے تھے  حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا،آپﷺ اسے دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے ،تو میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ! یہ جنازہ تو یہودی کا تھا تو آپﷺ نے فرمایا: موت کا خوف ہوتا ہے جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو۔(مسند احمد وسندہ صحیح،ح:14427)حضور ﷺ یہود کی عیادت کے لئے بھی تشریف لے جایا کرتے تھے  حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : یہود کا ایک لڑکا جو کہ آپﷺ کے لیئے وضو کا برتن رکھا کرتا تھا اور آپﷺ کے نعلین مبارک اٹھایا کرتا تھا  ایک مرتبہ بیمار ہو گیا  آپﷺ اسکی عیادت کے لیئے تشریف لے گئے اور اسے اسلام قبول کرنے کا کہا وہ یہودی بچہ اپنے باپ کی طرف دیکھتا ہےاسکا باپ اسکے سر کی جانب کھڑا تھا  تو اسکا باپ بھی اسے کہتا ہے کہ ابو القاسم ﷺ کیااطاعت کرو ،اس بچے نے  فورا اسلام قبول کر  لیا  پھر وہ بچہ وفات پاگیا ۔اور رسول ﷺ انکے گھر سے نکلے تو آپﷺ نے یہ فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اس بچے کو میری وجہ سے آگ سے بچالیا۔(مسند احمد وسندہ صحیح،ح:13978)

(3)منافقین سے آپﷺ کا رویہ:


آپﷺ نے  اپنی حیات طیبہ کی 13 بہاریں مکہ میں گزاریں   اسکے بعد آپﷺ مدینہ تشریف لے گئے آپﷺ جتنی دیر مکہ میں رہے    وہاں یا تو آپﷺ کے خالص دوست تھے یا خالص دشمن تھے   لیکن   آپس جب مدینہ تشریف لائے  تو  جہاں یہود آپﷺ کے دشمن بنے  وہیں ایک گروہ ایسا بھی آیا جو نہ  تھے تو کافر لیکن مسلمانوں سے اپنے مفاد کی غرض سے محبت  ظاہر کرتے تھے۔  آپﷺ نے کبھی ان سے بھی اعراض نہ کیا ۔
 ایک  مرتبہ آپﷺ  رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی  کے پاس سے گزرے  ادھر مسلمان ،منافق سبھی لوگوں کا اختلاط تھا  آپ ﷺ نے  عبداللہ بن ابی کو قرآن سنایا  اور دعوت دی تو اس نے  نہایت نازیبا کلمات سے جواب دیا ۔اور یہ منافقین اس قدر خبث باطن کے مالک تھے  کہ ہر موقع پر انہوں آپﷺ کے ساتھ غداری کی لیکن آپﷺ کی رحمدلی ،وسیع ظرفی اور شاندار رویہ   کو مندرجہ ذیل و اقعہ سے ملاحظہ کریں؛



 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں  کہ جب عبد اللہ بن ابی فوت ہوا اس کا بیٹا  عبد اللہ(جو صحا بی تھا) اللہ کے رسو ل ﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ سے آپکا  قمیص مانگا تا کہ اسمیں وہ اپنے باپ کو کفن دے سکیں او ر آپ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ﷺ میرے باپ کا جنازہ بھی پڑھائیں  ۔
 آپﷺ اسکا جنازہ پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو  حضر ت عمر رضی اللہ   نے آپ ﷺ کو کپڑے سے پکڑ کر روکنے کی کوشش کی   اور کہا کہ اے اللہ کے رسو لﷺ کیا اللہ نے  آپکو  انکا جنازہ پڑھانے سے روکا نہیں ہے؟
توآپﷺ نے فرمایا: اللہ نے مجھے اسکا اختیار دیا  ہے  کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے: آپﷺ آپ ان کے لئے استغفا ر کریں یا نہ کریں  اگرچہ آپ ان کے لئے 70 بار استغفار کریں اللہ ان (منافقین) کو معاف نہیں کرےگا ۔ (سورۃ التوبۃ، آیت نمبر :80) آپﷺ نے کہا  : (اگر اللہ اسکو معاف کر دے تو)میں 70 سے زائد بار بھی استغفار کر لوں  گا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : لیکن یہ تو منا فق ہے  ۔لیکن آپﷺ نے  اسکی نماز جنازہ پڑھائی ۔
 پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی "جب ان میں سے کوئی فوت ہو جائے   تو آپ انکی نماز جنازہ  نہ پڑھائیں  اور نہ ہی انکی قبر پر کھڑے ہوں "(سورۃ التوبۃ،آیت نمبر :84)  (صحیح البخاری ،ح: 4670)

خاتمہ   :

یہ  آپ ﷺ کا کفار و اہل کتاب سے  رویہ تھا  لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ان سے محبت     والے رویے اپنا لیں   بلکہ صرف ہمیں یہ تعلق     ظاہری  طور پر رکھنا چاہئے اور اپنے معاملات میں ہمیشہ   انکی مخالفت کرنی چاہئے ۔کیونکہ قرآن نے ہمیں یہ بتایا ہے:یہود ونصاریٰ تم سے کبھی خوش نہیں ہیں گے جب تک تم انکے دین کو نہ اپنا  لو(سورۃ البقرۃ، آیت نمبر :120)۔اسی طرح اللہ نے  ہمیں یہ حکم دیا ہے : اے مومنو! یہود و نصاریٰ کو تم اپنا دوست  نہ بناؤ (یہ  تمہارے دوست نہیں  ہو سکتے) بلکہ  یہ تو آپس میں  ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔اور جو ان سے محبت رکھے یہی لوگ  ظا لم ہیں(سورۃ المائدہ،آیت نمبر:51)   اور ہمارے نبیﷺ نے ہمیں   انکی مخالفت   کرنے کا حکم دیا ہے    اس لئے ہمیں ان سے قلبی تعلق نہیں رکھنا چاہیئے  بلکہ ہمیشہ انکی مخالفت کرنی چاہئے۔اگرچہ بعض مصالح کے پیش نظر  ان سے  ظاہری  تعلق رکھنا  جائز ہے ۔



1 comment:

  1. Good basic knowledge about habits of prophet Muhammad PBUH

    ReplyDelete