محمد ﷺ کا فقراء سے رویہ - Islamic Knowledge

محمد ﷺ کا فقراء سے رویہ

محمد ﷺ کا فقراء سے رویہ،فقراء سے حسن سلوک
محمد ﷺ کا فقراء سے رویہ


محمدﷺ کا فقراء سے رویہ

دنیا  میں اکثر غالب اقوام اور غالب تہذیب قوموں نے  ہمیشہ غریب کا گلا دبایا ہے ۔اسے معاشرے میں  ہمیشہ ہی حقیر ،کمتر ،مجبور،مظلوم ،مقہور رکھا اور تصور کیا گیا ہے ۔غریب ہونا ایک ایساگناہ بن گیا کہ جس کی سزا اس غریب کی نسلوں کو بھی بھگتنی پڑتی تھی جب تک کہ وہ مالی طور پر مضبو ط نہ ہو جائیں سرکا ر دو عالم ﷺ کی بعثت مبارکہ سے پہلے معاشرے میں اسطرح کے ظلم عام تھے ۔ایک غریب آدمی کے لئے  سوائے ذلت ،بے عزتی اور ظلم کے سو اکوئی حق نہ تھا ۔
یاد رکھیں ! ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فقیری کو پسند فرمایا ہے ۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مساکین سے محبت کیا کرو کیونکہ میں نے اللہ کے رسول ﷺکو فرماتے سنا ہے :اے اللہ!مجھے مسکینی کی حالت میں ہی زندہ رکھنا ،مسکینی میں ہی فوت کرنا اور روز حشر بھی مجھے مساکین کے ساتھ ہی اٹھانا۔(سنن ابن ماجہ وسندہ صحیح ،ح:4126)
معاشرے میں کسی غریب کے حقوق کا سلب کر لینا اور اسکی عزت کو تار تار  کر دینا  عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے  ۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے جن لوگوں نے فقراء پر ظلم وستم کئے ہیں اور انکے حقوق سلب کیے ہیں رب کائنات نے  انہین ذلت کی موت ماراہے۔
جبکہ اس کے بر عکس جن لوگوں نے فقراء سے محبت کی ہے انکے حقوق کا خیا ل رکھا ہے انکی دادرسی کی ہے اللہ نے انکو دنیا میں بھی عزت دی ہے اور آخرت میں بھی ایسے لوگوں کو اپنی جنت کا مہمان بنایا ہے۔
 جیسا کہ اللہ نے سورۃ الذاریات میں فرمایا ہے:یقینا متقی لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(انکی یہ صفت بھی ہے)کہ انکے مالوں میں سائل اور محروم کے لئے حق ہوتا ہے(سورۃ الذاریات ،آیت نمبر:15اور 19) 
اسی طرح اگر انسان  کے پاس کچھ نہ ہو یا کچھ دینے کی گنجائش نہ ہوتو انسان انکو کم از کم اچھے اخلا ق سے جواب دے سکتا ہےبلکہ ہمیں تو اللہ نے اسکی تلقین بھی کی ہے ۔اللہ نے فرمایا:اگر اللہ کی رحمت کو تلا ش کرتے ہوئے آپ نے ان سے اگر اعر اض بھی کرنا ہے تو انکے لئے اچھی بات کہیں۔
الغرض زندگی کے ہر شعبے میں آپﷺ نے ہمیں فقراء اور کمزوروں کے ساتھ اچھا رویہ اختیا ر کرنے کا حکم دیاہے اور آپﷺ نے  اپنے اقوال وافعال سے بھی ہمیں ان سے اچھا رویہ اختیار کرنے کاحکم دیا ہے۔ذیل میں فقراء کے ساتھ آپﷺ کے رویے کو بیان کیا گیا ہے۔پہلی سطور میں  فقراء اور مساکین کے متعلق آپﷺ کے اقوال کو بیان کیا گیا ہے۔

جنت میں فقراء اغنیاء سے پہلے داخل ہوں گے:

دور حاضر میں مال و دولت کی حوص اس قدر بڑھ چکی ہےہر آدمی کی محبت مال بن چکا ہے  ہر آدمی فقراء کو حقیر  سمجھتا ہے  لیکن اگر ہم اخروی زندگی کی طرف توجہ دیں تو ہمیں سمجھ آئے گی کہ اگر فقراء ومساکین اگر توحید پرست ہوں اور توحید کے تقاضے پورے کرنے والے ہوں تو اللہ انہیں  امراء سے کئی سو سال پہلے جنت میں داخل کر دے گا ۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَدْخُلُ فُقَرَاءُ المُسْلِمِينَ الجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِنِصْفِ يَوْمٍ وَهُوَ خَمْسُمِائَةِ عَامٍ» هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ۔ حضرت  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:مسلمان فقراء اپنے  مالدار لو گوں سے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔وہ آدھا دن 500سال کاہو گا(سنن الترمذی وسندہ حسن صحیح ،ح:2354)

جنت میں فقراء کی کثرت ہو گی: 

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:اطَّلَعْتُ فِي الجَنَّةِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا الفُقَرَاءَ۔حضرت  عمران بن حصین رضی اللہ عنہما  نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:میں نے جنت میں دیکھا تو میں نے اسمیں فقراء کو کثرت سے پایا۔(صحیح البخاری،ح:3241)

اہل جنت کی پہچان یہ ہے کہ  وہ فقراء ہوں گے:

معاشرے میں فقراء کو انکی بد حالی کی وجہ سے حقیر گردانا جاتا ہے ۔جبکہ جنت میں ایسے ہی فقراء کی کثرت ہو گی ۔جیساکہ مندرجہ ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔
عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ الخُزَاعِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ الجَنَّةِ؟ كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَاعِفٍ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ. أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ؟ كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ»
حضرت حارثہ بن وھب خزاعی ر ضی اللہ عنہ نبی ﷺ  سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:کیا میں تمہیں اہل جنت کی پہچان نہ بتاؤں؟ہرضعیف اور کمزور سمجھا جانے والا شخص ،(لیکن اسکی نیکی اس قدر زیادہ ہوگی)کہ اگر وہ اللہ پر قسم ڈال دے تو اللہ اسکی قسم کو پورا کر دیں گے،کیا میں تمہیں جہنمیوں کی پہچان نہ بتاؤں؟ہر  سخت مزاج،جھگڑالواور تکبر کرنے والا ہے۔(صحیح البخاری،ح:6071)
فقراءکی وجہ سے اغنیاء کو رزق ملتا ہے: عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: رَأَى سَعْدٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ لَهُ فَضْلًا عَلَى مَنْ دُونَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِكُمْ»حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے خیال کیا کہ (مال وغیرہ کی وجہ سے) انہیں    دوسروں پر فضیلت حاصل   ہے ،تو آپ ﷺ نے فرمایا:تمہیں  مدد اور نصرت  صرف  تمہارے   کمزوروں کی وجہ سے دی جاتی ہے۔(صحیح البخاری،ح:2896)
اور ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: إِنَّمَا يَنْصُرُ اللَّهُ هَذِهِ الْأُمَّةَ بِضَعِيفِهَا، بِدَعْوَتِهِمْ وَصَلَاتِهِمْ وَإِخْلَاصِهِمْ۔"اللہ رب العزت ان کمزورں  دعاؤں ،نمازوں اور انکے اخلاص کے سبب اس امت کی مدد کرتا ہے(سنن النسائی وسند ہ صحیح،ح:3178)

مساکین سے محبت نبی ﷺ کی سنت ہے:

ہمارے معاشرے میں لوگ اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کے بڑے دعوے کرتے ہیں ۔لیکن غرباء،مساکین کو حقیر جانتے ہیں اور ان سے برا سلو ک کرتے ہیں  ۔یاد رکھیں!جو انسان  فقراءومساکین سے حقارت آمیز رویے میں بات کرتا ہے ایسا شخص محب رسول ﷺ نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کو مساکین سے بڑی محبت تھی جس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے ۔  
حضرت انس رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ المَسَاكِينِ يَوْمَ القِيَامَةِ۔ اے اللہ!مجھے مسکینی کی حالت میں ہی زندہ رکھنا ،مسکینی میں ہی فوت کرنا اور روز حشر بھی مجھے مساکین کے ساتھ ہی اٹھانا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا :اے اللہ کے رسول ﷺ آپنے یہ دعا کیوں کی ہے؟توآپﷺ نے فرمایا:
إِنَّهُمْ يَدْخُلُونَ الجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا، يَا عَائِشَةُ لَا تَرُدِّي المِسْكِينَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، يَا عَائِشَةُ أَحِبِّي المَسَاكِينَ وَقَرِّبِيهِمْ فَإِنَّ اللَّهَ يُقَرِّبُكِ يَوْمَ القِيَامَةِ۔ کیونکہ فقراء مالداروں سے 40 سال پہلے جنت میں داخل ہو جائیں گے،اے عائشہ!کسی مسکین کو واپس نہ لوٹانا اگرچہ کھجور کے ٹکڑے (کا ہی اس نے سوال کیا ہو) ۔اے عائشہ!مساکین سے محبت کرنا اور انکو اپنے قریب کرو اللہ قیامت کے دن تمہیں اپنا قرب نصیب فرمائے گا۔(سنن الترمذی وسندہ صحیح،ح:2352)
اوپر والی روایات میں فقراء کے متعلق تاجدار رسل ،شاہ عرب وعجم حضرت محمد ﷺ کے  فرمودات عالیہ کو نقل کیا گیا ہے۔ اب فقراء کے متعلق آپﷺ کی ذاتی زندگی کے چند واقعات پیش خدمت ہیں ۔جن سے ہمیں  فقراء و مساکین سے اچھا سلوک اور بہترین رویہ رکھنے کا سبق ملتا ہے۔

مسکینہ عورت کی قبر پر جا کر اسکا  جنازہ پڑھنا:

حضرت ابو امامہ سہل بن حنیف بیان کرتے ہیں کہ:عوالی(مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے)میں  ایک مسکینہ عورت تھی جو کہ بیمار ہو گئی ۔آپﷺ  صحا بہ کرام رضی اللہ عنھم سے اسکے متعلق پوچھا کرتےتھے۔اور آپﷺ نے فرمایاتھا: إِنْ مَاتَتْ فَلَا تَدْفِنُوهَا حَتَّى أُصَلِّيَ عَلَيْهَا۔ "اگر یہ فوت ہو جائے جب تک میں خود اسکی نماز جنازہ نہ پڑھا دوں تب اسے دفن مت کرنا"جب وہ فوت ہو گئی تو (صحا بہ کرام رضی اللہ عنھم) نماز عشاء کے بعد اسے مدینہ لے آئے۔انہوں نے نبی کریمﷺ کو سوئے ہوئے پایا ۔ آپﷺ کو انہوں نے بیدار کرنا پسند نہ کیااور انہوں نے خود ہی اسکی نماز جنازہ پڑھی اور اسے بقیع الغرقد نامی قبرستان میں دفنا دیا ۔صبح آپﷺ نے اس مسکینہ عورت کے بارے صحا بہ کرام رضی اللہ عنھم سے پوچھا تا انہوں نے کہا :ہم آپکے پاس آئے تھے تو آپ سو رہے تھے تو ہم نے آپکو بیدار کرنا نا پسند کیا ۔اور اسے دفنا دیا گیا ہے۔آپﷺ نے فرمایا: ( قبرستان )چلو۔
آپﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ قبرستان آئے ۔انہوں نے آپ ﷺ کو اسکی قبر دکھائی،آپﷺ اسکی قبر پر کھڑے ہوئے ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین  نے بھی آپﷺ کے پیچھے صف بنا لی اور آپﷺ نے 4 تکبیرات کے ساتھ اسکی نماز جنازہ پڑھی۔(سنن النسائی وسندہ صحیح،ح:1969)
موجودہ دور میں اگر ہم لوگوں کی صورت حال دیکھیں تو اغنیاء کے جنازے پر تو لوگوں کا ازدحام اور ہجوم ہوتا ہے لیکن غریب اپنی میت کے لئے کفن کو ترس رہا ہوتا ہے ۔لیکن  سرکار دو عالم ﷺ نے اپنے عہد میں اپنے غریب اور کم مالدار اصحاب کا بھی خیا ل رکھا ہے اور انہیں بے سہارا نہیں چھوڑا۔

نبی ﷺ کی فقراء سے خو ش طبعی : 

ہمارے معاشرے میں لوگ گاڑی اور پیسہ دیکھ کر تعلق بناتے ہیں ۔اور غرباء سے حتی الوسع بچنے کی مکمل کوشش کرتے ہیں  لیکن  رحمت دو عالم ﷺ کا تعلق ، محبت اور نرمی کے حصول میں اغنیاءو فقراء سب برابر تھے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ  ایک دیہاتی شخص جس کا نام "زاہر بن حرام "تھا۔ وہ نبی ﷺ کو دیہات کے    تحفے دیا کرتا تھا۔ جب وہ واپس جانے لگتا تو نبی ﷺ بھی اسے تحفے دیا کرتے تھے۔  نبی ﷺ   (انہیں مزاحا) فرمایا کرتے تھے: إِنَّ زَاهِرًا بَادِيَتُنَا، وَنَحْنُ حَاضِرُوهُ۔"زاہر ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اسکے شہری ہے"ایک دن وہ اپنا سامان بیچنے کے لئے نبی ﷺ کے پاس آئے۔نبی ﷺ نے انکو پیچھے سے آکر پکڑ لیا  جبکہ وہ صحابی آپ ﷺ کو نہیں دیکھ پا رہے تھے ۔ انہوں نے کہا ،کون ہے؟مجھے چھوڑو۔جب انہیں پتا چلا کہ پیچھے نبی ﷺ ہیں تو وہ (حصول برکت ) کے لئے اپنی کمر نبی ﷺ کی چھاتی سے لگا نے لگے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا:کون اس غلام کو مجھ سے خریدے گا ؟تو زاہر نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ !اللہ کی قسم ! آپ مجھے کم قیمت ہی پائیں گےتو آپﷺ نے فرمایا:تم اللہ کے نزدیک کم قیمت نہیں ہو بلکہ بہت ہی مہنگے ہو۔(صحیح ابن حبان وسندہ صحیح،ح: 5790)

نبی رحمت ﷺ کی انوکھے انداز میں غریب کی مدد:

آج ہمارے معاشرے میں غریب کی اوّل تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے ۔لوگ غریب کو انسانوں کی جنس ہی نہیں سمجھتے اور اس سے چھوتوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔لیکن اگر کوئی کسی غریب کی مدد کرتا بھی ہے تو ہزار ددکھاوا ،احسان جتلاکے ،اس  کی عزت نفس کو مجروح کرکے اسکی مدد کرتا ہے جسکی اللہ کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔لیکن جس نبی کی ہم امت ہیں اس نے اپنے مستحق صحابہ کی ایسے انداز میں مدد کی ہے کہ  اپنے ساتھی کو محسوس بھی نہیں ہونے دیا۔آیئے مندرجہ ذیل واقعہ ملاحظہ کریں ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما نبی ﷺ کے صحابی ہیں ۔انکے والد محترم حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ جو کہ اُحد میں شہا دت پا گئے تھے ۔انکے والد پیچھے بہت سا قرض چھوڑ گئے تھے  ظاہر ہے جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ادا کرنا تھا ۔مزید انکی 9بہنیں تھیں ۔انکے پاس صرف ایک  کھجوروں کا باغ تھا  ۔اس باغ کا سارا پھل دے کر بھی قرض نہیں اتر سکتا تھا ۔اسکے علاوہ اپنے گھر کو چلانے کےلیے بھی انکو  مالی معاونت کی ضرورت تھی ۔
 حضرت جابر رضی اللہ عنہ خود ہی بیان کرتے ہیں کہ وہ (سفر میں)ایک اونٹ پر سوار تھے جو کہ تھک چکا تھا  ۔انہوں نے اس اونٹ کو چھوڑ دینا چاہا۔پیچھے سے نبی ﷺ انکو آملے  ۔فرماتے ہیں کہ : آپﷺ نے میرے لئے دعا کی اور  اونٹ کو (ہلکی سی ) ضرب لگائی ۔تو وہ اتنا اچھا چلا کہ اس انداز میں وہ پہلے کبھی نہیں چلا ۔پھر نبی ﷺ نے کہا : (جابر) یہ اونٹ مجھے ایک اوقیہ (ایک اوقیہ 40 دراہم کا ہوتا ہے) میں بیچ دو ۔میں نے کہا : نہیں ۔ پھر آپ ﷺ نے مجھے کہا :یہ مجھے بیچ دو ۔تو میں نے آپﷺ کو یہ اونٹ بیچ دیا ۔اور گھر تک جانے کو استثناء کر لیا۔جب میں گھر گیا تو میں آپ ﷺ کے پاس اونٹ لے آیا۔ آپﷺ نے مجھے اسکی نقد قیمت دی ۔ میں واپس لوٹا تو آپ ﷺ نے مجھے بُلا بھیجا اور کہا:تو نے کیا سمجھا کہ میں نے تجھ  سے قیمت اس لیئے کم کروائی ہے تاکہ میں تیرا اونٹ لے لوں ؟ اپنا اونٹ بھی لے لو اور دراہم بھی لے لو ۔ یہ سارا تیرا  ہی ہے ۔(صحیح مسلم ،ح:109)
دیکھیں جب آپﷺ نے ان سے احسان اور ان پر صدقہ کرنے کا ارادہ کیا  آپﷺ نے اسے جتلایا نہیں ،عزت نفس مجروح نہیں کی ،غربت کا طعنہ نہیں دیا  بلکہ  اپنے  اس احسان اور صدقے کو بھی لطف وادب کے دائرے میں ڈھانپ دیا ۔

خاتمہ:  

آپ ﷺ کا ایسا رویہ مستحق افراد کے ساتھ ہوتا تھا ۔لیکن جو لوگ کمانے کی طاقت رکھنے کے باوجود  گدا گری اور مانگنے سے باز نہیں آتے  ایسے لوگوں کے بارے میں آپ  ﷺ نے سخت وعید بتائی ہے ۔
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم: «مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ حَتَّى يَأْتِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ»حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو آدمی (قوت کے باوجود)ہمیشہ  (لوگوں سے ) سوال کرتا رہتا ہے جب وہ قیامت کے دن آئے گا تو اس کےچہرے پر گوشت ہی نہیں ہوگا۔(صحیح البخاری،ح:1474)
ایسے بھوکے لوگ جہاں دنیا میں ذلیل ہوتے ہیں آخرت میں بھی اللہ کی اس پکڑ سے بچ نہیں پائیں گے ۔





No comments:

Post a Comment