دنیا
کے اکثر مذاہب میں نچلے طبقات کا بہت کم خیا ل رکھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اکثر مذاہب میں نچلے طبقات ہمیشہ پژمردگی ،مایوسی ،محرومیت اور مظلومیت کی زندگی
گزار تے ہیں اور کوئی بھی انکے حقوق ادا
کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتا ہے اور یہ نچلہ طبقہ سسک سسک کر اپنی زندگی
گزاردیتاہے جبکہ سرمایہ دار طبقہ انہی کے
خون کو چوس کر آسودگی اور خوشحالی کی زندگی گزار تا ہے ۔ معاشرے کے انہی مظلوم
طبقات میں سے ایک طبقہ یتیم بچوں کا بھی
ہے۔چونکہ انکے سر سے تحفظ کا سایہ اٹھ
جاتا ہے اور شفقت پدری سے محروم ہو جاتے ہیں ۔تو انکے سگے انکے
اجنبی بن جاتے ہیں ،قرابت دار بھی نظریں چرانے لگ جاتےہیں اور معا شرے کے بے رحم تھپیڑے ان معصوموں کاجینا
دوبھر کر دیتے ہیں ۔ہمارے اس معاشرے میں (جسے مہذ ب کہا جاتا ہے) بھی ایسے بچے موجود ہیں جو کہ پہلے تو نازونعم میں پلتے ہیں اور انکے رشتہ دار بھی
ان کے لئے خوب محبت والفت کے گانے گا تے ہیں لیکن جونہی باپ کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے یہی بچے
اپنے ہی ان رشتہ داروں کی غلامی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ لیکن قربا ن جا ئیں سرکار
دو عالمﷺ کی ذات پر کہ آپ ﷺ ان یتیموں کے
لیئے بھی سراپا رحمت بن کر آئے ،انکے بہتے آنسوؤں کو پونچھا اورانکو مکمل اپنا ئیت
دی اور ایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ سرکا ر دو عالم ﷺ کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً
لِلْعَالَمِينَ۔(اے
نبیﷺ ) ہم نے آپکو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجاہے(سورۃ الانبیاء
،آیت نمبر:107) اللہ رب العزت نے قرآن میں
جس مقام پر جنتیوں کی صفات بیان کی ہیں
وہیں انکی ایک یہ صفت بھی بیان کی ہے کہ وہ یتیموں کو (اللہ کی رضا کے لیئے)کھانا
کھلاتے ہیں جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے: وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ
مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا۔(جنتی ) اپنی خواہش کے باوجود مسکین ،یتیم اور قیدی کو کھانا کھلا نے والے
ہوں گے ۔(سورۃ الدہر ،آیت نمبر:08)بلا شبہ سرکار دو عالم ﷺ نے یتیموں کے حقوق کا بھی خیال رکھا ہے اور انکے ساتھ حسن سلوک کرنے کی
تلقین کی ہے ۔ذیل میں محمد ﷺ کے یتیموں
کے ساتھ رویہ کو بیان کیا گیا ہے۔ اس
حوالے سے یتیموں کے بارے میں سرکار دو عالم ﷺ کے فرموداتِ عالیہ کو نقل کیا گیا
ہے۔
یتیموں سے حسن سلوک:یتیموں سے حسن سلوک کا مطلب ہے کہ جسطرح انسان اپنے بچوں کی
ضروریات کا خیال رکھتا ہے ، انکی صحت
،لباس ،کھانا،رہائش ان تمام اشیاء کا ان
کے لئے بہترین انتظام کرتا ہے اسی طرح وہ
یتیم بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ رکھے۔
حضرت محمد ﷺ نے ہمیں یتیموں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنے کاحکم دیاہے ۔ حضرت
ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: «وَمَنْ أَحْسَنَ
إِلَى يَتِيمَةٍ أَوْ يَتِيمٍ عِنْدَهُ كُنْتُ أَنَا وَهُوَ فِي الْجَنَّةِ
كَهَاتَيْنِ وَقَرَنَ بَيْنَ إِصْبُعَيْهِ»جس شخص نے کسی یتیم بچی یا بچے سے اچھا سلوک کیا میں
اور وہ جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے اور آپﷺ نے اپنی دو انگلیوں کو جوڑا۔(یعنی
جسطرح یہ دو انگلیاں ایک دوسرے کے با لکل قریب ہیں اسی طرح یہ شخص بھی جنت میں میرے ساتھ ایسے ہی ہوگا)(مسند
احمد ،وسندہ صحیح لغیرہ،ح:22284)
یتیم کےلئے دوڑ دھوپ
کرنا جہاد کرنے کی طرح ہے:موجودہ دور جتنا ترقی
یا فتہ ہوتا جارہا ہے اتنی ہی لوگوں میں مطلب پرستی ،حصول ِمفاداتنا ہی بڑھ
گیا ہے ۔ لیکن رحمت دو
عالم ﷺ نے ہمیں اس بات کا درس دیا ہے کہ ہم
یتیموں کے کام آئیں ۔اور جو شخص کسی یتیم
کی خاطر کوشش کرتا ہے سرکا ر دو عالم ﷺ نے ایسے شخص کو بہت بڑ ے اجر کی نوید سنائی ہے جیسا کہ
مندرجہ ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:«السَّاعِي عَلَى الأَرْمَلَةِ
وَالمِسْكِينِ، كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوِ القَائِمِ اللَّيْلَ
الصَّائِمِ النَّهَارَ»بیوہ اور یتیم کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے یا رات بھر قیام
کرنے والے اور دن بھر روزہ رکھنے والے کی مانند ہے۔(صحیح البخا ری،ح:5353) یعنی
ایسے شخص کو ویسا ہی اجر ملتا ہے جیسا اللہ کی راہ میں جہا د کرنے والے یا قائم
اللیل وصائم النھا رکو ملتا ہے ۔ آپ ﷺ جو بھی بات کیا کرتے
تھے اس پر عمل بھی کیا کرتے تھے ۔اسی طرح آپﷺ
ذاتی طور بھی یتیموں وبیواؤں سے اچھا سلوک کیا کرتے تھے ۔حضرت عبد اللہ بن دینا ر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ان عمر
رضی اللہ عنہما کو ابو طالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا:«وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الغَمَامُ
بِوَجْهِهِ ... ثِمَالُ اليَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ»وہ سفید چہرے والے
(یعنی آپﷺ)جن کے ذریعے سے بارش مانگی جاتی ہے وہ یتیموں کے والی اور بیواؤں کا
سہارا ہیں۔(صحیح البخاری ،ح:1008)
یتیم کی کفالت جنت کی ضمانت ہے: ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے معاشرے کے نچلے سے نچلے اور کمزور سے کمزورطبقات کے حقوق کا خیال رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے یتیم کی
کفا لت کرنےوالے یعنی اسکی حاجات وضروریات پورا کرنے والے کو جنت کی
ضمانت دی ہے۔حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ
نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:«أَنَا وَكَافِلُ اليَتِيمِ فِي
الجَنَّةِ هَكَذَا» وَقَالَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالوُسْطَى۔میں اور یتیم کی کفالت
کرنے والا جنت میں اسطرح ہوں گے اور آپﷺ نے اپنی شہادت اور درمیان والی انگلی سے
اشارہ کیا ۔(صحیح البخاری،ح:6005) اسی طرح جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور اسکے بچے بھی ہوں
اور وہ عورت اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت کی خاطر دوسری شادی نہیں کرتی سرکار دو
عام ﷺ نے ایسی عورت کو جنت کی بشارت دی ہے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے
ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:میرے لیئے سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا
مگر ایک عورت جلدی سے میرے پاس آئے گی اور میں اس سے پو چھوں گا کہ تمہیں کیا
مسئلہ ہے؟اور تم کون ہو؟تو وہ عورت کہے گی:أَنَا امْرَأَةٌقَعَدْتُ عَلَى
أَيْتَامٍ لِي۔میرے یتیم بچے تھے اور
میں نے ان بچوں کی خاطر (دوسری شادی) نہ
کی۔(یعنی وہ عورت پھر جنت میں چلی جائے گی۔)(مسند ابی یعلیٰ،واسنادہ جید،ح:6651)
اوپر یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے حوالے سے حضرت
محمد ﷺ کی زبان سے نکلے ہوئے موتیوں کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی گئی ہے اب یتیموں
سے حسن سلوک ، ان سے محبت ،انکی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے حوالے سے آپﷺ کی زند گی کے عملی نمونے پیش کیے گئے ہیں
یتیموں سے
محبت کا عملی مظاہرہ:آپﷺ
نے جنگ موتہ کے لئے ایک لشکر تیار کر کے بھیجا اس لشکر میں سیدنا علی بن ابی طالب
رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ بھی تھے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اس جنگ میں شہید ہو گئے
۔حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
ہمیں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس لایا گیا تو
آپ ﷺ نے حجا م کو بلواکر ہماری حلق کروائی۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا:محمد (یہ بھی جعفررضی
اللہ عنہ کے بیٹے تھے)یہ تو ہمارے چچا ابو طالب جیسا ہےاور عبد اللہ(یہ بھی جعفررضی
اللہ عنہ کے بیٹے تھے) یہ سیرت وصورت میں میرے جیسا ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے میرا ہاتھ
پکڑ کر اوپر اٹھایااور تین بار یہ کہا :اللهُمَّ اخْلُفْ
جَعْفَرًا فِي أَهْلِهِ، وَبَارِكْ لِعَبْدِ اللهِ فِي صَفْقَةِ يَمِينِهِ۔اے اللہ جعفر کو
بہترین نائب دے اور عبد اللہ کے کام میں برکت عطا فرما۔ فرماتے ہیں کہ ہماری ماں نے آکر رسول ﷺ سے ہماری
یتیمی کا شکوہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:الْعَيْلَةَ تَخَافِينَ عَلَيْهِمْ وَأَنَا
وَلِيُّهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟!۔میرے ہوتے ہوئے انکے فقر و فا قہ کے با رے
میں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ (مسند
احمد وسندہ صحیح ،ح:1750)
یتامیٰ ومسا کین کی مدد میں
کوئی عا ر نہیں :صحا بہ کرام رضی
اللہ عنھم نے اللہ کے رسول ﷺ کے جہاں دیگر اوصاف بیان کئے ہیں وہیں اپ ﷺ کی یہ صفت
بھی بیان کی ہے کہ آپﷺ مساکین بیواؤں کی مدد کرنے میں کوئی عار محسو س نہیں کیا
کرتےتھے۔حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی ٰ رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول ﷺ کے او صاف بیان
کرتے ہوئے فرما تے ہیں :وَلَا يَأْنَفُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَ الْأَرْمَلَةِ،
وَالْمِسْكِينِ فَيَقْضِيَ لَهُ حَاجَتَهُ۔کسی بیوہ یا مسکین کے
ساتھ چل کر اسکی ضرورت کو پورا کر دینے میں آپ ﷺ کسی بھی قسم کی کوئی عا ر محسوس نہیں کیا کرتے تھے۔(سنن النسا ئی،وسندہ صحیح،ح:1414) صحابی کے بیان
کرنے کے انداز سے واضح ہوتا ہے کہ رحمت دو
عالم ﷺ کا م یہ معمول تھا کہ آپ ﷺ اکثر معاشرے کے ایسے افراد کی مدد کرتے رہتے
تھے۔ اسکے علاوہ بھی اسلام نے یتیموں کو بہت سے حقو ق دیئے ہیں مثلا انکی مالی
معاونت اگر مال ہے تو انکے مال کی حفا ظت ،انکے مال کو ہڑپ نہ کرنا ،یتیم بچیوں کی
شادیاں کرنا اسطرح کے بنیادی حقوق ہیں ۔ہمارے
نبی ﷺ نے ہمیں عملی مظاہرہ کرکے یتیموں سے بہترین سلوک کا درس دیا ہے اور انکے حقوق کی ادا ئیگی کو لازمی بنایا
ہے اس لئے ہمیں چاہیئے کہ ہم سیرت نبویﷺ
کو سامنے رکھتے ہوئے یتیم ،مسکین اور بیواؤں سے بہترین سلوک کی کوشش کریں ۔اللہ ہمیں
عمل کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین!
Ø
No comments:
Post a Comment